کسی انسان کا امتِ محمدیہ کا فرد ہونا ہی اس کی بہت بڑی بختی اور زبردست سعادت مندی ہے کیونکہ یہ وہ امت ہے جس کو تمام امتوں پر افضیلت اور فوقیت حاصل ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کو بہترین امت قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس کی فضیلت کا سبب بھی بیان فرما دیا ہے ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ…..( سورة آل عمران/ 110 )
ترجمہ : تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کیے گئے ہو ، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو
گویا امتِ محمدیہ کے تمام افراد کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اچھائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں ۔
أنتم تُتِمُّونَ سَبعينَ أمةً؛ أنتم خيرُها وأكرمُها على اللهِ تعالى (رواه الترمذي و صححه الألباني )
ترجمہ:” تم سترویں امت ہو اگرچہ اس دنیا میں آخری ہو لیکن فضیلت میں تمام سابقہ امتوں سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہتر اور معزز ہو“
لیکن قابلِ غور طلب بات یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ کون سرانجام دیگا ؟
کیا یہ کام منبر و محراب سے صدا بلند کرنے والے اور مصلۓ امام پر بیٹھنے والے علمائے کرام ہی کریں گے ؟
نہیں…….! بلکہ اس کائنات میں بسنے والے ہر ایک فرد و بشر کی ذمہ داری ہے خصوصاً ایک مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے کہ وہ برائی کو روکنے اور نیکی کا حکم دینے کا عزم رکھے اور اسی کوشش
میں ہمہ وقت لگا رہے ۔
ہمارا فریضہ
. علم اور نیت کی درستگی : پہلے خود نیکی کو سیکھیں اور برائی سے بچیں
– نیت خالص رکھیں، صرف اللہ کی رضا کے لیے یہ کام کریں۔
حکمت اور نرمی
لوگوں کو سمجھائیں، زبردستی یا تلخی سے کام نہ لیں
– اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ” (النحل: 125)
ترجمہ: اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ۔
: مراحل کے مطابق عمل
نبی ﷺ نے فرمایا
مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ” (مسلم)
ترجمہ: جو شخص برائی دیکھے، اسے چاہیے کہ ہاتھ سے بدل دے، اگر نہ کر سکے تو زبان سے، اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو دل سے برا سمجھے، اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔
-اس حدیث میں تین درجات بیان کیے گئے
ہاتھ سے روکنا – اگر اقتدار، اختیار یا ذمہ داری ہو۔
. زبان سے روکنا – اگر ہاتھ سے ممکن نہ ہو، تو زبان سے سمجھانا
. دل سے برا جاننا – یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔
. حدود کا خیال
– معروف (نیکی) اور منکر (برائی) کی پہچان شرعی دلائل سے ہونی چاہیے۔
– دوسروں کے حقوق اور عزت نفس کا خیال رکھیں۔