You are currently viewing ماہِ شعبان فضیلت و حقیقت اور بدعات

ماہِ شعبان فضیلت و حقیقت اور بدعات

Table of Contents

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ( سورة المائدة آیت ٣ )اللہ تعالیٰ اپنی مقدس کتاب قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ
آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مكمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا-
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے صاف صاف بیان کر دیا ہے کہ امت محمدیہ کے لئے دین مکمل کر دیا گیا ہے ، اب اس میں کسی کو کمی بیشی کرنے کا اختیار نہیں ، اب اگر کوئی اس دین میں کمی بیشی کریگا تو اسے بدعت شمار کیا جائے گا چنانچہ نبی کریم ﷺ نے بہت ہی واضح اور صاف صاف لفظوں میں اعلان کردیا ہے کہ ” میرے بعد کچھ لوگ آئیں گے جو اپنے اقوال و افعال سے دین میں نئے نئے امور ایجاد کریں گے اور اسے ثواب اور نیکی سمجھتے ہوئے انجام دینگے جبکہ ایسی تمام چیزیں بدعات کے زمرے میں آئیں گی جن کا شریعت میں نہ ہی کوئی مقام ہے اور نہ ہی ان سے شریعت کا کوئی لینا دینا ہے چاہے وہ کام کتنے ہی اخلاص اور نیک نیتی سے انجام دئیے جائیں ، جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ” من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد ” ( متفق عليه )
جو شخص ہمارے اس دین میں کوئی ایسا نیا کام ایجاد کرے جو ہمارے دین میں نہ ہو تو وہ غیر مقبول ہوگا –
اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :من عمل عملاً ليس عليه أمرنا فهو رد ”
( صحیح مسلم 1718 )
جس نے کوئی ایسا کام کیا جس کی بابت ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ مردود ہے –
مذکورہ احادیث میں ایک نہایت اہم ضابطہ اور قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر وہ چیز جسے نیکی اور ثواب سمجھ کر انجام دیا جائے جبکہ کتاب وسنت میں اس کا کوئی وجود نہ ہو یا نصوصِ شریعت کی اُس تعبیر سے وہ مختلف ہو جو صحابہ کرام و تابعین عظام نے کی جو اسلام کا بہترین دور تھا اور خیرالقرون کے تعامل کی تائید سے بھی محروم ہو تو ایسے تمام کام بدعت ہوں گے –
محترم قارئین! میں بچپن سے دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے گاؤں اور اس کے اطراف میں شب برأت کا بہت چلن ہے لوگ حلوے ، پوری اور قسم قسم کی مٹھائیاں اور پکوان تیار کرتے ، گھروں میں چراغ جلاتے ہیں، نئے نئے کپڑے پہنتے ہیں، گویا ایسا لگتا ہے کہ آج عید کا دن ہو، کسی بوڑھے اور عمر رسیدہ آدمی سے پوچھو تو شب برأت کی عجیب و غریب فضیلت بتاتے ہیں ، ایک پل کو لگتا ہے یہ دین کا حصہ ہے مگر جب قرآن و حدیث کا مطالعہ کرو پھر عقل کا دریچہ وسیع ہونے لگتا ہے اور وہ ساری بدعتیں، بےجا رسمیں اور امورِ واہیانہ کھل کر سامنے آجاتی ہیں کہ لوگوں نے خوبصورت لفظوں کے ذریعہ سے سماج میں بدعات و خرافات رائج کیا ہوا ہے چنانچہ انہی وجوہات کے پیش نظر میں نے سوچا کیوں نا کوئی ایسا مضمون لکھا جائے جس میں شبِ قدر کی صحیح فضیلت، اس کی اہمیت اور اس کے متعلق عوام الناس کے ذہنوں میں موجود تمام شبہات و اشکالات کا تشفی بخش جواب ہو تاکہ لوگ صحیح تعلیمات کی طرف گامزن ہوسکیں.

شب برأت

اس میں کسی کو بھی کوئی شک نہیں ہے کہ “ شب “ کا لفظ عربی زبان کا لفظ نہیں ہے بلکہ یہ فارسی زبان کا لفظ ہے – مذہبی طور پر ہماری تمام تر اصطلاحات عربی میں ہیں جیسےالصلوٰۃنماز کے لئےالزکوٰۃ ، الصوم ، الحج “ اسی طرح سے مذہبی تہوار کو لے لیجئے جیسے عید الفطر اور عیدالاضحیٰ وغیرہ – شب کا لفظ فارسی لفظ ہے جس کے معنی بلا شبہ رات ہی کے ہیں لیکن اس میں مذہبی اصطلاح کے طور پر استعمال ہونے کی استطاعت نہیں ہے- شب برأت میں دوسرا لفظ “برأت” استعمال ہوا ہے ، جس کے معنی ہیں بے زاری ، قطع تعلق ، نجات و رستگاری وغیرہ کے – یہ نقطہ ہمیشہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ مذہبی اصطلاحات ہمیشہ پوری عربی میں استعمال ہوئی ہیں آدھی عربی اور آدھی کسی دوسری زبان کبھی استعمال نہیں ہوئی ہیں لہذا جب ہم اس نام پر غور کریں گے تو پتا چلے گا کہ شب برأت کا نام ہی دراصل اسکے غیر شرعی ہونے کی دلیل ہے۔ غور کیجئے کہ قرآن عربی میں ، تمام احادیث عربی میں اور ’ شب ’ فارسی میں لہذا ” شب ” “ برأت “ کے ساتھ کبھی مربوط ہو ہی نہیں سکتا –
یہ بھی ذہن نشین رہے کہ پانچویں صدی ہجری کی ابتداء تک حدیث و تفسیر کی جتنی بھی کتابیں لکھی گئیں اور اس سلسلہ کی جتنی روایات ان کتابوں میں نقل کی گئیں ان میں کسی روایت میں لیلۃ البرأت کا لفظ قطعاً نہیں پایا جاتا – اس کا یہ نام پانچویں صدی ہجری کے آخر میں آیا اور یہ نام رکھنے والے صوفیا ہیں ( تذکرۃ الموضوعات از علامہ طاہر بن علی الحنفی پٹنی متوفی ٩٨٦ھ )

ماہِ شعبان اور نبی ﷺ کا عمل

  • شعبان روزہ کی وجہ سے فضیلت کا حامل ہے ، ماہ شعبان میں رسول ﷺ رمضان چھوڑ کر باقی سب مہینوں کی بہ نسبت زیادہ روزے رکھتے تھے ، اس پورے مہینے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس عبادت کا خاص طور پر اہتمام کیا وہ روزہ ہے اور اس کا اہتمام پورے مہینے میں کیا ،کسی ایک دن کے ساتھ اس کو خاص نہیں کیا اور نہ ہی اِس مہینے کے کسی ایک دن کے روزے کی کوئی فضیلت بیان کی – چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ “ كانَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَصُومُ حتَّى نَقُولَ: لا يُفْطِرُ، ويُفْطِرُ حتَّى نَقُولَ: لا يَصُومُ، فَما رَأَيْتُ رَسولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ إلَّا رَمَضَانَ، وما رَأَيْتُهُ أكْثَرَ صِيَامًا منه في شَعْبَانَ. “ ( متفق علیہ )
    رسول اللہ ﷺ روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ روزے نہیں چھوڑتے – پھر روزہ چھوڑتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ روزہ نہیں رکھتے اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو کبھی کسی مہینے کے مکمل روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے رمضان المبارک کے اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا.
    نیز دوسری جگہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی حدیث ہے کہ “ كان أحبَّ الشهورِ إلى رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ أنْ يصومَه شعبانُ بل كان يصلُه برمضانَ. “
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو روزوں کیلئے سب سے محبوب مہینہ شعبان تھا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد رمضان کے روزے رکھتے –
    ایک دوسری جگہ ام المومنین بیان کرتی ہیں کہ “ ما رأيتُ النَّبيَّ في شهرٍ أكثرَ صيامًا منه في شعبانَ، كان يصومُه إلا قليلًا، بل كان يصومُه كلَّه. “
    ( سنن أبی داود /٢٤٣١ و صححه الألباني )
    میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا – آپ اس میں روزے رکھتے تھے سوائے چند ایام کے – بلکہ آپ پورے مہینے میں ہی روزے رکھتے تھے –
    اس موضوع کی احادیث صحاح و سنن میں بکثرت ہیں ، جن میں سے بعض تو كُلّه “ کے الفاظ کے بھی بیان ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورے شعبان کے روزے رکھتے تھے ، مگر اس کُلّ سے مراد اکثر ہے نہ کہ مکمل مہینہ ، کیونکہ صحیح مسلم و نسائی میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ” وَ لا صَام شَهراً كامِلاً قطُّ مُنذُ قدِم المدِينةَ غير رمضان “  نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ طیبہ آئے ، سوائے رمضان کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ماہ کے پورے روزے کبھی نہیں رکھے –
    عربوں میں ویسے بھی اکثر پر کُلّ کا لفظ بولا جانا معروف ہے ، چنانچہ امام ترمذی نے عبداللہ بن المبارک سے نقل کیا ہےو هو جائز في كلامِ العرب اِذا صامَ أكثرَ الشهرِ أَنْ يّقول : صَام الشهر كله “

ماہ شعبان میں بکثرت روزے رکھنے کی حکمت

نبی کریم ﷺ کے ماہ شعبان کے اکثر روزے رکھنے کے متعدد وجوہات بیان کی گئی ہیں ، حتیٰ کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ علیہ نے فتح الباری میں ، علامّہ یمانی رحمہ اللہ نے سبل السلام میں اور دیگر شارحین نے اپنی اپنی کتب میں بعض روایات بھی نقل کی ہیں ، جن میں اس کا سبب بھی مذکور ہے ، مگر وہ ساری ضعیف روایات ہیں ، لہذا ان سے قطع نظر اس سلسلہ میں صحیح ترین حدیث وہ ہے جو کہ ابو داؤد و نسائی اور صحیح ابن خزیمہ میں مذکور ہے جس میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ سے پوچھا کہ يا رسولَ اللَّهِ ! لم ارك تَصومُ شَهْرًا منَ الشُّهورِ ما تصومُ من شعبانَ ؟ ! قالَ : ذلِكَ شَهْرٌ يَغفُلُ النَّاسُ عنهُ بينَ رجبٍ ورمضانَ ، وَهوَ شَهْرٌ تُرفَعُ فيهِ الأعمالُ إلى ربِّ العالمينَ ، فأحبُّ أن يُرفَعَ عمَلي وأَنا صائمٌ(صحيح النسائي:2356)
آپ جتنے روزے شعبان میں رکھتے ہیں کسی اور مہینہ میں اتنے روزے نہیں رکھتے؟ آپﷺ نے جواب میں فرمایا:یہ ایسا مہینہ ہے جس میں لوگ غفلت کا شکار ہوجاتے ہیں جو رجب اور رمضان کے مابین ہے، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں، میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں اٹھائے جائیں۔
بہر حال آپ ﷺ ماہِ شعبان میں بکثرت روزے رکھا کرتے تھے ، اور نبی ﷺ کی ہر سنت مبنی بر حکمت اور کسی نہ کسی برائی کو دور کرنے والی ہے
خلاصہ کلام یہ ہے کہ نبی ﷺ کی اقتدا ء میں ہمیں ماہ شعبان میں صرف روزے کا اہتمام کرنا چاہئے وہ بھی بکثرت اور کسی ایسے عمل کو انجام نہیں دینا چاہئے جس کا ثبوت شریعت سے نہیں ہے۔

شب برأت کی فضیلت

ماہ شعبان کے روزوں کے فضائل و حکمت صحیح احادیث سے جاننے کے بعد اب سوال یہ ہے کہ اس ماہ کی پندرہویں رات کی کیا اہمیت ہے ؟ کیا وہ رات اہمیت کی حامل ہے بھی یا نہیں ؟
حقیقت یہ ہے کہ جن دو چار راتوں کی فضیلت خاص طور پر بیان کی جاتی ہے اور اس میں صحیح و غلط کی تمیز نہیں کی جاتی ان میں ایک شعبان کی پندرہویں رات کی فضیلت ہے جس کو عام طور سے شب برأت کہا جاتا ہے – پندرہویں شعبان کی رات میں بہت سارے مسلمان جن عقائد و نظریات اور اعمال و افعال کو بڑی عقیدت و احترام سے انجام دیتے ہیں اور انہیں اسلامی اعمال سے جوڑتے ہیں ان تمام اعمال کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے –
شب برأت کی فضیلت کے متعلق بہت سی احادیث بیان کی جاتی ہیں لیکن ایک حدیث کو چھوڑ کر ساری کی ساری ضعیف ، موضوع اور من گھڑت ہیں البتہ اس رات کے بارے میں نبی ﷺ کا یہ ارشاد صحیح سند کے ساتھ روایت کیا گیا ہےيطَّلِعُ الله تبارك و تعالیٰ إلى خَلقِه ليلةَ النِّصفِ مِن شعبان فيغفِرُ لجميع خلقِه، إلّا لمُشرِكٍ أو مُشاحِن.
( صحیح ابن حبان ، معجم طبرانی ، شعب الایمان بیہقی )
اللہ تبارک و تعالیٰ شعبان کی پندرہویں رات کو اپنی پوری مخلوق کی کی طرف بنظر رحمت دیکھتا ہے ، پھر مشرک اور کینہ پرور کے سوا باقی ساری مخلوق کی بخشش کر دیتا ہے
محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ اس حدیث کے مختلف طرق ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ” و جُملةُ القَولِ أَنَّ الحديثَ بِمجْموعِ هذه الطُّرُقِ صحيح بلا ريبٍ “ ( السلسلة الصحيحة للألباني /١١٤٤ ، نوٹ ! یاد رہے کہ اس حدیث کو بہت سے محدثین نے ضعیف بھی قرار دیا ہے )
خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث ان تمام طرق کے ساتھ بلا شک صحیح ہے “
جبکہ دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں :إنّ اللهَ يَطَّلِعُ على عِبادِه في ليلةِ النِّصفِ مِن شعبانَ، فَيغفِرُ للمؤمنينَ، و يُمْلِي للكافِرينَ، و يَدَعُ أًهلَ الحِقْدِ بِحقْدِهِمْ حتّى يَدَعُوهُ. “
( صحيح الجامع للألباني /١٨٩٨ )
بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں رات کو اپنے بندوں پر رحمت کی نظر ڈالتا ہے ، پھر مومنوں کو معاف کر دیتا اور کافروں کو ڈھیل دے دیتا ہے اور کینہ پرور لوگوں کو چھوڑ دیتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے دلوں کو کینہ سے پاک نہ کر دیں “
یہی وہ حدیث ہے جو شعبان کی پندرہویں رات کی فضیلت میں صحیح سند کے ساتھ روایت کی گئی ہے اسکے علاوہ جتنی بھی احادیث عام طور پر بیان کی جاتی ہیں سب کی سب ضعیف من گھڑت اور موضوع ہیں –
گرچہ یہ حدیث صحیح ہے لیکن اس میں دوسری راتوں کی بہ نسبت اس رات کی فضیلت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ صحیحین کی روایت میں اس سے زیادہ فضیلت ہر رات میں توبہ و استغفار کو حاصل ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دنیاوی آسمان پر نزول ہر رات میں ہوتا ہے لہٰذا اس حدیث سے پندرہویں رات کی فضیلت ثابت نہیں ہوتی –

شب برأت کے متعلق چند کچھ من گھڑت اور ضعیف احادیث

ایسی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے جس سے پندرہویں شعبان کو روزہ رکھنے کی دلیل بنتی ہو، صحیح احادیث سے شعبان کا اکثر روزہ رکھنے کی دلیل ملتی ہے ۔ جو لوگ روزہ رکھنے کے لئے شعبان کی پندرہویں تاریخ متعین کرتے ہیں وہ دین میں بدعت کا ارتکاب کرتے ہیں اور بدعت موجب جہنم ہے ۔ اگر کوئی کہے کہ پندرہویں شعبان کو روزہ رکھنے سے متعلق حدیث ملتی ہے تو ایسی روایت گھڑی ہوئی اور بناوٹی ہے۔ جو گھڑی ہوئی روایت کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کرے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔ اب میں شب برأت کے متعلق جو مشہور ضعیف احادیث لوگ بیان کرتے ہیں اسے آپ کے سامنے رکھتا ہوں کیونکہ جب تک آپ کو ضعیف اور من گھڑت احادیث نہیں معلوم ہوں گی تب تک آپ ہر چیز کو صحیح ہی سمجھیں گے –
١۔ شعبانُ شهري و رمضان شهْر الله “ ( ضعیف الجامع للألبانی /٣٤٠٢ / موضوع )
شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا “ اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے موضوع قرار دیا ہے
٢۔ ایک اور بہت ہی مشہور حدیث بیان کی جاتی ہے کہ ایک رات آپ ﷺ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے یہاں تھے ، آپ اچانک وہاں سے نکلے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے پیچھے گئیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ آپ بقیع میں ہیں – آپ نے انہیں دیکھا اور فرمایا: ” کیا تمہیں اس بات کا اندیشہ تھا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ تم پر ظلم کریں گے ؟
انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! مجھے یہ شک ہوا تھا کہ شاید آپ کسی اور بیوی کے یہاں چلے گئے ہیں – تو آپ صلی االلہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ” إنّ اللهَ تبارک و تعالٰی ينزلُ ليلةَ النصفِ من شعبانَ إلى السماءِ الدنيا فيغفرُ لأكثرِ من عددِ شَعْرِ غنمِ كلبٍ.“ ( سنن ترمذی/٧٣٩ ، سنن ابن ماجہ/١٣٧٩ ضعفه الألباني )
” بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں رات کو آسمان دنیا پر آتا ہے ، پھر بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت کرتا ہے “
اس حدیث کو امام ترمذی ، امام بخاری ، امام دارقطنی ، علامہ ابن جوزی ، علامہ ابن باز اور علامہ البانی رحمہم اللہ وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے پھر اس حدیث سے شب برأت میں خصوصی زیارت کی مشروعیت کا ثبوت کیسے حاصل ہوگا –
واضح رہے کہ قصۂ عائشہ جو رسول ﷺ کے بقیع میں جانے اور اہل بقیع کیلئے دعا کرنے کے متعلق ہے وہ صحیح ہے اور صحیح مسلم وغیرہ میں تفصیلاً موجود ہے لیکن اس میں شعبان کہ پندرہویں رات کا کوئی ذکر نہیں ہے –
٣۔ عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال : كانَ رسولُ اللهِ إذا دخلَ رجَبٌ قالَ اللَّهمَّ بارِك لنا في رَجبٍ وشعبانَ وبلِّغنا رمضانَ. ( مشكوٰة / ١٣٦٩ ، یہ حدیث ضعیف ہے )
” حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، جب ماہ رجب شروع ہوتا تو رسول ﷺ دعا فرماتے : اے اللہ! ہمارے لئے رجب و شعبان میں برکت فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچا –
٤۔ عن علي بن أبي طالب قال : قال رسول ﷺ : إذا كان ليلةُ النِّصْفِ من شعبانَ فقُومُوا ليلتَها، وصُومُوا يومَها، فإنّ اللهَ ينزلُ فيها لغروبِ الشمسِ إلى سماءِ الدنيا فيقولُ: ألا مُسْتَغْفِرٌ فأَغْفِرَ له؟ ألا مُسْتَرْزِقٌ فأَرْزُقَه؟ ألا مُبْتَلًى فأُعافِيَه؟ ألا سائلٌ فأُعْطِيَه؟ ألا كذا ألا كذا؟ حتى يَطْلُعَ الفجرُ. ( ضعيف الجامع للألباني/٦٥٢: موضوع )
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول ﷺ نے فرمایا : جب شعبان کی پندرہویں رات آئے تو تم اس رات میں قیام کیا کرو اور اگلے روز کا روزہ رکھا کرو ، کیونکہ اس رات کی شام سے ہی اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر آکر فرماتا ہے : کیا کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اسے معاف کر دوں ؟ کیا کوئی رزق طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کو رزق دوں ؟ کیا کوئی بیمار ہے کہ میں اسے عافیت دے دوں ؟ کیا کوئی سوال کرنے والا ہے کہ میں اسے دوں ؟ کیا کوئی … کیا کوئی ….. یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جائے -“
٥- حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ایک اور حدیث جس میں انہوں نے ذکر کیا ہے کہ نبی ﷺ نے شعبان کہ پندرہویں رات کو چودہ رکعات پڑھیں ، اس کے بعد کچھ سورتوں کی تلاوت کی ، پھر فرمایا : ” جو شخص اس طرح کرے جیسا کہ میں نے کیا ہے تو اسے بیس مقبول حجوں اور بیس سال کے مقبول روزوں کا ثواب ملتا ہے –

ابن الجوزی اس حدیث کو ” الموضوعات “ میں روایت کرنے کے بعد کہتے ہیں : ” یہ حدیث من گھڑت ہے اور اسکی سند نہایت تاریک ہے “
الغرض پندرہویں شعبان کے متعلق جتنی بھی احادیث ہیں سب کی سب ضعیف موضوع اور من گھڑت ہے –

شب برأت اور مروجہ بدعات

١- قبرستان کی زیارت

ہمارے معاشرے میں پندرہ شعبان کی رات کو جوق در جوق لوگ خاص طور سے مغرب کی نماز کے بعد اس طرح قبرستان جاتے ہیں مانو جیسے کسی کی میّت ہوگئی ہو اور تجہیز و تکفین اور کفن و دفن کے لئے جا رہے ہوں ، قبرستان کو اس طرح سے سجاتے ہیں جس طرح سے شادی بیاہ میں گھر کو سجایا جاتا ہے ، قمقمے لگاتے ہیں ، قالین بجھاتے ہیں اور پتہ نہیں کیا کیا بدعات انجام دیتے ہیں – یہ تمام چیزیں ناجائز و حرام ہیں ، اس سے ہم تمام مسلمانوں کو بچنا چاہئے – بے شک قبرستان جائیے ، بلکہ نبی ﷺ نے تو اس بات کی ترغیب بھی دلائی ہے کہ یہ فکرِ موت و ذکرِ آخرت میں معاون ہوتی ہے – جیسا کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” قبروں کی زیارت کرو اس لئے کہ یہ تمہیں موت یاد دلاتی ہے ہیں – ( صحیح مسلم/٩٧٦ )
پندرہ شعبان کو خاص طور سے قبرستان جانے والی حدیث سخت ضعیف ہے – جو لوگ جاتے ہیں وہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا والی حدیث سے استدلال کرتے ہیں – جبکہ اس حدیث میں پندرہ شعبان کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے – اگر آپ کو قبرستان کی زیارت ہی کرنی ہے تو روز کیجئے یا پھر برابر کرتے ہی رہئیے صرف ایک ہی دن کیوں ؟

٢۔ آتش بازی و چراغاں کرنا

شب برأت منانے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس رات بڑے زور و شور سے آتش بازی کی جاتی ہے ، پٹاخے چھوڑے جاتے ہیں ، موم بتیاں اور شمعیں جلا کر چراغاں کیا جاتا ہے ، امت محمدیہ اس پر بے دریغ اپنی جائز کمائی کو صرف کرتی ہے اور اسراف و فضول خرچی کا مظاہرہ کرکے شیطان کے بھائی بنتی ہے ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سراسر ہندوانہ تہوار دیوالی کی نقّالی ہے اور صحیح حدیث میں نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” مَن تَشبَّهَ بقَومٍ فهو منهم جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے اس کا شمار اسی قوم سے ہوگا

میں اس تماشے میں کرتا ہوں شرکاء شمار
ضیاع مال ، ضیاع عمل ، ضیاع وقار

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی آتش بازی کی شناعت و قباحت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آتش بازی کی متعدد خرابیاں ہیں –
١- مال کا ضیاع کرنا جس کا حرام ہونا قرآن مجید میں منصوص ہے –
٢۔ اپنی جان ، پڑوسیوں اور بچوں کی جان کو خطرے میں ڈالنا جس کی حرمت میں اللہ فرماتا ہے ” وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ “ ( سورۃ البقرۃ/١٩٥ )
٣۔ بعض آلاتِ آتش بازی اوپر کو چھوڑے جاتے ہیں ، پہلا یہ کہ کسی کے سر پر گرنے کا خطرہ ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ یاجوج و ماجوج کی مشابہت ہے کہ وہ آسمان کی طرف تیر چلائیں گے –
علامہ سیوطی فرع شرح المہذب میں لکھتے ہیں کہ بہت سے ملکوں میں سال کی معروف راتوں مثلاً شب برأت نصف شعبان کو بڑی بڑی قندیلیں جلاتے ہیں جس کی وجہ سے بہت مفاسد پیدا ہوتے ہیں –
١۔ اہتمام کے ساتھ کثرت سے آگ جلا کر مجوسیوں کی طرح بیٹھنے کے مشابہ ہے –
٢۔ غلط جگہ مال ضائع کرنا –
٣۔ اس کے نتیجے میں بچوں اور نکمّوں کی بھیڑ لگتی ہے –
مشہور حنفی عالم ملّا علی قاری رحمہ اللہ شارح مشکوٰۃ لکھتے ہیں کہ اس رات چراغاں اور زیادہ روشنی کرنا قوم برامکہ کی ایجاد ہے یہ لوگ اصل میں بت پرست تھے جب اسلام لائے تو انہوں نے یہ رسم اسلام میں داخل کر دی تاکہ مسلمانوں کے ساتھ نماز میں آگ کو سجدہ کریں ، شریعت میں اس رات چراغاں کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے – ( مرقاة المفاتيح شرح مشكوٰة المصابيح /ج١/ص١٩٨ )

٣۔ گھروں کی صفائی اور روحوں کی آمد کا نظریہ

پندرہ شعبان کو منانے کا تیسرا مروّجہ طریقہ یہ ہے کہ اس رات کے استقبال کے لئے گھروں کی صاف صفائی بڑے اہتمام کے ساتھ کی جاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ سجاوٹ اور خوشبو و چراغاں کیا جاتا ہے اور یہ سب کرنے کے پیچھے یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ اس رات خاندان کے مردہ اور بزرگوں کی روحیں گھروں میں تشریف لاتی ہیں اور رات بھر رہ کر صبح کے وقت عالم ارواح کی طرف لوٹ جاتی ہیں اگر گھر کو صاف ستھرا پاتی ہیں تو خوش ہوتی ہیں سور دعائیں دے کر واپس ہو جاتی ہیں ورنہ مایوس ہوکر چلی جاتی ہے ، اس لئے ان روحوں کا استقبال کرنے کے لئے گھروں کو سنوارتے ، روشنیوں سے سجاتے اور قمقمے وغیرہ لگاتے ہیں – صفائی ستھرائی پر اسلام نے بڑا زور دیا ہے، بدن کی صفائی ، کپڑوں کی صفائی، گھر اور باہر کی صفائی ہر ایک کا تاکیدی حکم آیا ہے، یہاں تک کہ ایک حدیث میں صفائی اور پاکی کو نصف ایمان کہا گیا ہے۔
اور دوسری حدیث میں ہے کہ ” الطُّهُورُ شَطْرُ الإِيمَانِ “( أخرجه مسلم/223 ، والترمذي/3517 )
ان حدیث کا اطلاق مسلمانوں کی پوری زندگی کے ہر ماہ و سال اور شب و روز پر ہوتا ہے ، تو پھر اس حکم کو صرف ایک رات کے ساتھ خاص کیوں کیا جائے ؟ پندرہ شعبان کی شام کو گھروں کی صفائی ستھرائی اور سجاوٹ کی تہہ میں کارفرما نظریہ کہ اس رات فوت شدگان کی روحیں واپس آتی ہیں ، یہ عقیدہ سراسر باطل ہے ، قرآن و سنت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ، مرنے کے بعد کسی کی روح کا واپس آنا نہ شعبان کی اس رات میں ممکن ہے اور نہ ہی کسی دوسرے دن میں ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نیک لوگوں کی روح علیین میں اور برے لوگوں کی روح سجین میں رہتی ہے اور وہاں سے روحوں کے واپس آنے کا تصور ہی نہیں – جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ “( سورۃ المؤمنون ، آیت ١٠٠ ) ” مرنے کے بعد وہ ایسے برزخ میں ہیں کہ وہ قیامت تک دنیا میں پلٹ کر نہیں آسکتے ” –
بر صغیر کے معاشرے میں مخصوص حلوہ خور نام نہاد ملا و مولانا حضرات نے اپنے مخصوص مفادات کے لئے روحوں کی آمد و رفت کا باقاعدہ ایک چارٹ مہیا کر رکھا ہے جس کے مطابق وہ عوام سے فوت شدگان کے نام پر کھاتے ، پیتے اور کپڑے لتّے اور مال و دولت کی شکل میں نظرانے وصول کرتے رہتے ہیں – ایک پوائنٹ کی بات بتاتا چلوں کہ کچھ نام نہاد اور مفاد پرست لوگ بھولی بھالی اور جاہل عوام کو قرآن مجید کے تیسویں پارے کی اس آیتتَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا سے یہ باور کرواتے ہیں کہ اس رات میں فرشتوں اور روحوں کا نزول ہوتا ہے – جبکہ یہاں روح سے مراد جبرئیل علیہ السلام ہیں اور اس رات سے مراد شب قدر ہے نہ کہ شعبان کی پندرہویں رات –

٤۔ روحیں ملانے کا عقیدہ

بعض مسلمانوں میں یہ غیر اسلامی عقیدہ بھی پایا جاتا ہے کہ جو شخص شب برأت سے پہلے مرجاتا ہے اس کی روح روحوں میں نہیں ملتی بلکہ آوارہ بھٹکتی رہتی ہے۔ پھر جب شب برأت آتی ہے تو روح کو روحوں میں ملانے کا ختم دلایا جاتا ہے، عمدہ قسم کے کھانے، میوے پھل وغیرہ مجلس میں رکھ کر امام مسجد ختم پڑھتے ہیں۔ اور روحوں کو روحوں میں ملا دیتے ہیں اور کھانے، میوے، پھل وغیرہ اور قیمتی کپڑے اٹھا کر گھر لے جاتے ہیں۔ میت کے گھر والے شکر ادا کرتے ہیں کہ ان کے مرنے والے رشتہ دار کی روح روحوں میں شامل ہوگئی اور اگر نہ ہوتی تو اس کی بددعا سے گھر والوں پر تباہی آتی۔

یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

چنانچہ مولانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:
’’بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جب شب برات سے پہلے کوئی مر جائے تو جب تک کہ اس کے لئے فاتحہ شب برات نہ کیا جائے تو وہ مردوں میں شامل نہیں ہوتا، یہ بھی محض تصنیف یاراں اور بالکل لغو ہے، بلکہ رواج ہے کہ اگر تہوار سے پہلے کوئی مر جائے تو کنبہ بھر میں پہلا تہوار نہیں ہوتا ، حدیثوں میں صاف مذکور ہے کہ جب مردہ مرتا ہے تو مرتے ہی اپنے جیسے لوگوں میں جا پہنچتا ہے، یہ نہیں کہ شب برات تک اٹکا رہتا ہے۔“
(اصلاح الرسوم ، ص:۱۳۲-۱۳۳)

٥۔ حلوہ و انواع و اقسام کے کھانے بنانا

شب برات کے دن یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ بہت سارے گھروں میں لذيذ، مرغن اور مرغوب کھانے تیار کیے جاتے ہیں ، بیشتر نادار اور غیر مستطیع لوگ قرض لے کر اس کام کو انجام دیتے ہیں اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی یا کمی کو باعث ننگ و عار سمجھتے ہیں اور ساتھ ہی ثواب سے محرومی کا سبب بھی۔
اس موقع پر جو پکوان پکائے جاتے ہیں، ان میں حلوہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے اس کا اہتمام کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے، اس حلوے سے متعلق جو لچر پوچ دلیلیں دی جاتی ہیں ، اور ساتھ ہی یہ عقیدہ رکھنا کہ اس دن آپ ﷺ کے دندان مبارک شہید ہوئے تھے اور آپ ﷺ کو حلوہ کھلایا گیا تھا اسلئے ہم بھی اسی خوشی میں یہ سب کرتے ہیں – یہ من گھڑت اور خود ساختہ قصہ ہے جسے نہایت ہی فخر سے بیان کیا جاتا ہے – پہلی بات کہ آپ ﷺ کے دندان مبارک غزوۂ احد شوال ٣ھ میں شہید ہوئے تھے اور یہ لوگ حلوہ شعبان میں کھاتے ہیں اور وہ بھی بغیر دانت توڑے ہوئے کھاتے ہیں – اور اس طرح کا کھانا سامنے والے دانت سے نہیں بلکہ داڑہ سے کھایا جاتا ہے جبکہ آپ ﷺ کے سامنے کے دانت ٹوٹے تھے –
اسی طرح حلوہ خوروں کا کہنا ہے کہ اویس قرنی تابعی نے نبی ﷺ کی محبت میں اپنے دانت توڑ لئے تھے تو ان کے لئے جنت سے حلوہ لایا گیا تھا ، یہ بھی فرضی اور من گھڑت قصہ ہے اگر اسکو بفرض محال مان لیا جائے تو اویس قرنی نے محبت رسول میں اپنے دانت توڑ لئے تھے اور پھر حلوہ کھایا لیکن یہ حلوہ خور بے غیرت بغیر دانت توڑے ہوئے انتہائی شان سے حلوہ کھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم عاشق رسول ہیں –

کسی کو زخم لگے کھائے دوسرا حلوہ
یہودیوں کی طرح یہ ہے من اور سلوی

٦۔ نصف شعبان کا روزہ

پندرہ شعبان کی رات یعنی شب برأت کو منانے کا پانچواں طریقہ یہ ہے کہ اس دن کا روزہ رکھا جاتا ہے اور رات کو ذکر و اذکار کے لئے مخصوص کیا جاتا ہے ، اور سب سے زیادہ معروف و معمول بہ طریقہ یہی ہے ، نبی ﷺ بلا تخصیص یوم ، اس ماہِ شعبان کے بکثرت روزے رکھا کرتے تھے – جو شخص صوم داؤدی کا عادی ہو ، وہ اس ماہ کے حسب معمول روزے رکھ سکتا ہے ، اس میں چاہے پندرہ شعبان کا روزہ بھی ہو ، چاہے رمضان سے ایک دو دن قبل کا روزہ بھی کیوں نہ آجائے – یا پھر ایسا آدمی جو ہر ماہ ایام بیض یعنی چاند کی تیرہ ، چودہ ، پندرہ تاریخ کا روزہ رکھتا آرہا ہے وہ بھی بلا اختلاف اس دن کا روزہ رکھ سکتا ہے کیونکہ وہ صرف پندرہ شعبان کا روزہ نہیں رکھے گا بلکہ ساتھ ہی تیرہ ، چودہ کا بھی رکھے گا ، اور وہ صرف شعبان میں ہی ایسا نہیں کررہا بلکہ وہ سال بھر کے تمام مہینوں میں مسلسل یہی عمل کرتا آرہا ہے –
اور اسی طرح سے جو شخص ہفتہ میں پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتا آیا ہو وہ پندرہ شعبان کو پیر یا جمعرات کا دن آجانے کی شکل میں روزہ رکھ سکتا ہے ، پندرہ شعبان سے لے کر آخر شعبان تک غیر عادی اور عام آدمی کو روزہ رکھنے کی ممانعت ہے جیسا کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ” إذا انتصف شعبانُ، فلا تصوموا حتى يكونُ رمضانُ. “
( سنن أبی داود/٢٠٤٩ ، ترمذی مع التحفة ٣/٤٣٧ ، ابن ماجہ ١٦٥١ ، صحیح الجامع للألبانی ١/٦٨ )
خاص پندرہ شعبان کا روزہ رکھنے کے لئے بھی بعض روایات بیان کی جاتی ہیں جن سے استدلال کیا جاتا ہے کہ پندرہ شعبان کا روزہ ثابت ہے جبکہ وک روایت اس قدر ضعیف و کمزور ہے کہ اس سے استدلال کرنا ہی جائز نہیں ، یہی وجہ ہے کہ محث برصغیر علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” لمْ أجِد في صومِ يومِ ليلةِ النّصفِ مِن شعبان حديثاً صحيحاً مرفوعاً “ ( تحفة الاحوذي ٣/٤٤٤ )
” نصف شعبان کے دن کے روزے کے بارے میں کوئی ایک بھی صحیح سند والی اور نبی ﷺ تک پہنچنے والی مرفوع حدیث مجھے نہیں ملی “
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” فأمّا صَوم يومِ النّصفِ مفرداً فلا أصْلَ له بلْ اِفرادُه مَكْرُوةٌ “ ( اقتضاء الصراط المستقیم/ ٦٢٨ )
” صرف اکیلے پندرہ شعبان کا روزہ رکھنا لا اصل ہے ، بلکہ مکروہ ہے “

٧۔ پندرہ شعبان کی رات کو مخصوص نمازیں

پندرہ شعبان کی رات کو منانے کا چھٹّا طریقہ یہ ہے کہ لوگ مسجدوں میں مغرب سے کچھ پہلے جمع ہونا شروع کردیتے ہیں ، ان میں وہ حضرات بھی ہوتے ہیں جو کبھی فرائض بھی ادا نہیں کرتے – اس رات ایک مخصوص نماز پڑھی جاتی ہے جسے ” صلاة الخير يا صلاة الألفية “ بھی کہا جاتا ہے – الصلوٰۃ الألفیة یا ہزاری نماز کا نام رکھنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس کی سو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں اور ہر رکعت میں دس مرتبہ ” سورۃ الأخلاص “ پڑھی جاتی ہے ، اس طرح ایک نماز میں ہزار مرتبہ سورہ اخلاص کے پڑھے جانے کی وجہ سے اسے صلاة الألفية یا نماز ہزاری کا نام دیا گیا ہے ( الباعث على انكار البدع و الحوادث /٣٢ )
امام ابو بکر طرطوسی نے اپنی کتاب ” الحوادث و البدع “ میں امام ابو محمد عبدالرحمن مقدسی سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ” بیت المقدس میں یہ نماز ” صلاة الرغائب “ ( ایسی نماز جو بدعتی ماہ رجب میں ادا کرتے ہیں ) اور صلاة الألفية ( پندرہ شعبان کی رات والی نماز ) کا رواج نہیں تھا “ مزید فرمایا کہ ” و أوّلُ ما حدثَتْ عِندَنا صلوٰةُ شعبان في سنة ثمانٍ و اربعين و اربع مِائة “ ” اور یہ شعبان والی نماز تو ٤٤٨ھ میں ایجاد  کی گئی ہے “
اور آگے بیت المقدس میں اس نماز کے آغاز کا واقعہ نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ” نابلس سے ایک شخص ابن ابی حمراء بیت المقدس آیا جو بڑا خوش الحان قاری تھا ، اس نے مسجد اقصی میں یہ نماز پڑھنا شروع کیا ، پہلے پہل اس کے ساتھ صرف ایک ہی آدمی تھا ، پھر دو، تین ، چار اس طرح سے ایک بڑی جماعت اس کے ساتھ مل گئی ، اور پھر وہی شخص آئندہ سال بھی آیا تو اس کے ساتھ ایک خلقِ کثیر نے نماز پڑھی اور اس کا چرچا مسجدوں اور گھروں میں عام ہوگیا ، اور پھر یہ سلسلہ ایسا چلا کہ آج تک اسے پابندی سے ادا کیا جا رہا ہے جیسے کہ وہ کوئی مسنون عمل ہو “ ( الابداع للشيخ علي محفوظ/٢٨٨ )
شیخ الاسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ ” جامع مسجد ، محلوں ، راستوں ، اور بازاروں کی دیگر مساجد میں یہ جو الصلوٰة الألفية کے لئے اکٹھا ہوا جاتا ہے ، یہ بدعت ہے اور یہ اجتماع جو ایک مقررہ وقت ، مقررہ رکعات اور مقررہ قراءت والی نفلی نماز کے لئے ہے یہ غیر مشروع اور بدعت ہے – اور اس کا پتہ دینے والی روایت اہل علم حدیث کے نزدیک بالاتفاق من گھڑت ہے – ( الاقتضاء ، ج/٢، ص/٦٢٨ )
علامہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ پندرہویں شعبان کو کوئی عبادت مشروع نہیں اگر پندرہویں شعبان کی رات میں اجتماع کرنا یا کچھ عبادت کرنا مشروع ہوتا تو نبی ﷺ ضرور رہنمائی فرماتے یا اپنی امت کو آگاہ کرتے یا خود عبادت کرتے ( بدعات مروجہ شریعت محمدیہ کی روشنی میں ، ص/ ٤٢ )
محدث کبیر علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ خصوصی طور پر پندرہویں شعبان کی رات کو زندہ کرنا ، اس میں بیدار رہنا ، اس کا اہتمام کرنا بلا شک بدعت و گمراہی ہے ( مرعاة المفاتيح شرح مشكوٰة المصابيح ، ج/٤ ، ص/٣٤٢ )
المختصر شعبان کی پندرہویں رات میں پڑھی جانے والی مخصوص نماز کسی حدیث سے ثابت نہیں ، نہ باجماعت نہ بلا جماعت ، نہ سراً ، نہ جہراً یہ سارے امور بے اصل ہیں شریعت اسلامیہ میں ان کا کوئی ثبوت نہیں ، یہ گمراہ کن بدعت ہے جن سے بچنے کی قرآن و سنت میں تعلیم و تلقین کی گئی ہے لہٰذا تمام مسلمانوں کو اسوۂ نبوی اپناتے ہوئے ان تمام بدعات و خرافات اور باطل رسوم و رواج اور غیر شرعی اعمال و عقائد سے اجتناب کرنا چاہیے –
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ امت مسلمہ کو صراط مستقیم پر قائم و دائم رکھے اور ان کو کتاب و سنت پر عمل پیرا ہونے اور تمام قسم کی بدعات و خرافات اور باطل اعمال و افعال اور عقائد و نظریات سے بچنے کی توفیق دے آمین یارب العالمین

محمد علي محمد مسلم الآعظمي

متعلم : جامعة القصيم ، المملكة العربية السعودية

Read this also 

This Post Has 2 Comments

  1. Hamood Sami

    ماشاء اللہ علی بھائی
    مضمون اول سے لے کر آخر تک کافی علمی اور مستند ہے
    اللہ ہم سب دین اسلام کی صحیح سمجھ عطا فرمائے…. آمین
    🌹 🌹 🌹

Leave a Reply