You are currently viewing رمضان و آخری عشرے کی فضیلت اور شاپنگ

رمضان و آخری عشرے کی فضیلت اور شاپنگ

رمضان المبارک کا مہینہ ان عظیم نعمتوں میں سے ایک انتہائی عظیم نعمت ہے ، جو اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو عنایت فرمائی ہے ۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو نبوت عطا کیا ، یہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کا نزول ہوا ، یہ وہ آسمانی کتاب ہے جس نے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ، دین و شریعت میں ، تہذیب و تمدن میں ، علوم و فنون میں ، معاشرت و معیشت میں ، غرضیکہ زندگی کے تمام شعبوں میں انقلاب برپا کر دیا اور اسی نزول کی وجہ رمضان خیر و برکت کا مہینہ قرار پایا ۔ روزہ اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ” بُني الإسلامُ على خمسٍ، شهادةِ أن لا إله إلا اللهُ، وإقامِ الصلاةِ، وإيتاءِ الزكاةِ، والحجِّ، وصومِ رمضانَ “ ( متفق عليه )
رمضان المبارک اللہ تعالیٰ کی رحمتوں ، برکتوں کا مہینہ ہے اللہ تعالیٰ نے روزے دار کو خود اجر و ثواب دینے کا وعدہ کیا ہے چنانچہ حدیث قدسی ہے کہ ” إنّ الصَّومَ لي، و أنا أجزي بهِ “ ( صحيح الجامع 1907 ) بے شک روزہ میرے لئے ہے اور اس کا بدلہ میں ہی دونگا ۔
اسی طریقے سے روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے –
اسی طرح سے اللہ کے رسول ﷺ روزے داروں کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ” إنّ في الجَنَّةِ بابًا يُقالُ له الرَّيّانُ، يَدْخُلُ منه الصّائِمُونَ يَومَ القِيامَةِ، لا يَدْخُلُ معهُمْ أحَدٌ غَيْرُهُمْ، يُقالُ: أيْنَ الصّائِمُونَ؟ فَيَدْخُلُونَ منه، فَإذا دَخَلَ آخِرُهُمْ، أُغْلِقَ فَلَمْ يَدْخُلْ منه أحَدٌ “ ( متفق عليه)
جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہتے ہیں ، قیامت کے دن اس میں سے روزے دار داخل ہونگے ، ان کے علاوہ کوئی اور داخل نہیں ہو سکتا ، اعلان ہوگا کہ کہاں ہیں روزے دار لوگ ؟ پس وہ داخل ہو جائینگے ، جب ان میں سے آخری بندہ داخل ہو جائے گا تو دروازہ بند کر دیا جائے گا ، اسکے بعد کوئی اور داخل نہیں ہو پائے گا۔
اس مہینے کی آمد پر جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور ساتھ میں شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” إذا كانَت أوَّلُ ليلةٍ من رمَضانَ صُفِّدتِ الشَّياطينُ ومَردةُ الجِنِّ وغلِّقت أبَوابُ النّارِ فلم يُفتَحْ منها بابٌ وفُتِحت أبوابُ الجنَّةِ فلم يُغلَقْ منها بابٌ ونادى منادٍ يا باغيَ الخيرِ أقبِلْ ويا باغيَ الشَّرِّ أقصِر وللهِ عتقاءُ منَ النّارِ وذلِك في كلِّ ليلةٍ.“ ( ابن ماجة / 1642 ) جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطان اور سرکش جن زنجیروں میں جکڑ دئے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں ، اور اس کا کوئی بھی دروازہ کھلا ہوا نہیں رہتا ، جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ، اور اس کا کوئی بھی دروازہ بند نہیں رہتا ، پکارنے والا پکارتا ہے : اے بھلائی کے چاہنے والے ! بھلائی کے کام میں آگے بڑھ ، اور اے برائی کے چاہنے والے ! اپنی برائی سے رک جا اور لوگوں کو اللہ جہنم کی آگ سے آزاد کرتا ہے اور یہ ( رمضان کی ) ہر رات میں ہوتا ہے –
اس مہینے کی عظمت اور برکت بلا شبہ عظیم ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس کی رحمتیں اور برکتیں ہر اس شخص کے حصے میں آجائے جو اس مہینے کو پالے ایسا بالکل بھی نہیں ہے اس مثال سے آپ اچھی طرح سے سمجھ سکتے ہیں کہ جب بارش ہوتی ہے تو مختلف ندی نالے اور تالاب اپنی اپنی وسعت و گہرائی کے مطابق ہی اس کے پانی سے فیض یاب ہوتے ہیں ۔ اسی طرح سے زمین کے مختلف ٹکڑے بھی اپنی استعداد کے مطابق ہی فصل دیتے ہیں ۔ پانی تو سب پر یکساں برستا ہے مگر ایک چھوٹے سے گڑھے کے حصے میں اتنا وافر مقدار میں پانی نہیں آتا جتنا ایک لمبے چوڑے تالاب میں بھر جاتا ہے ، اسی طرح سے جب پانی کسی چٹان یا بنجر زمین پر گرتا ہے تو اس کے اوپر ہی بہہ جاتا ہے اور اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ، لیکن اگر زمین زرخیز ہو تو لہلہا اٹھتی ہے یہی حال انسانوں کی فطرت اور ان کے نصیب کا ہے ۔
رمضان المبارک کے ان خزانوں میں سے آپ کو کیا کچھ ملے گا ؟ زمین کی طرح آپ کے نرم دل اور آنکھیں نم ہونگی ، آپ ایمان کا بیج اپنے اندر ڈالیں گے اور اپنی صلاحیت و استعداد کی حفاظت کریں گے ، تو بیج پودا بنے گا اور پودا درخت ، درخت اعمال صالحہ کے پھل پھول اور پتیوں سے لہلہا اٹھیں گی اور آپ ابدی بادشاہت کی فصل تیار ہوگی اور جتنی محنت کریں گے اتنی ہی اچھی فصل ہوگی ۔ دل پتھر کی طرح سخت ہوں گے اور آپ غافل کسان کی طرح سوتے پڑے رہ جائیں گے ، تو روزوں اور تراویح اور رحمت و برکت کا سارا پانی بہہ جائے گا اور آپ کے ہاتھ کچھ بھی نہ آئے گا ۔
رمضان المبارک کا مہینہ اپنی رحمتوں اور برکتوں کی بارش برساتا ہوا آخری عشرے میں داخل ہوگیا ہے ، آخری عشرہ پہلے بیس دنوں کے مقابلے میں زیادہ اہمیت و فضیلت کا حامل ہے ، اس میں اللہ تعالیٰ نے قدر کی رات رکھی ہے اور رسول ﷺ نے ان دس دنوں کے بارے اس قدر متحرک ہوتے جتنا دوسرے دنوں میں نہیں ہوتے تھے ، جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ” كانَ النبيُّ ﷺ إذا دَخَلَ العَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهُ، وأَحْيا لَيْلَهُ، وأَيْقَظَ أهْلَهُ. “ ( صحيح البخاري / 2024 )
نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت کے لئے کمربستہ ہوجاتے تھے شب بیداری فرماتے اور اپنے گھر والوں کو بھی بیدار رکھتے تھے ۔
ایک دوسری حدیث حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ” تحرُّوا ليلةَ القدرِ، في الوترِ من العشرِ الأواخرِ من رمضانَ. “ ( صحيح البخاري/ 2017 ) تم لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو ۔
ان روایات سے یہ معلوم ہوا کہ قدر کی رات رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہیں ان کی تلاش اور اس کے لئے جد و جہد کرنی چاہئے ان طاق راتوں میں نماز کی ادائیگی ، کلام اللہ کی تلاوت ، ذکر و اذکار ، توبہ و استغفار زیادہ سے زیادہ کرنی چاہئے ، کیونکہ اس رات کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ { لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ } شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے ۔ آپ ایک بار کے لئے حساب لگائیں کہ ہزار مہینہ تقریباً تِراسی 83 سال ، چار 4 مہینے ہوتا ہے ، سوچو اگر کسی شخص نے شب قدر حاصل کر لیا تو وہ تراسی سال چار مہینے کے بقدر اجروثواب کما کر سابقہ امتوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں بلکہ ان کے بھی آگے جنت میں مقام بنا سکتے ہیں ، اب سوچئے ذرا کہ پچھلی امتوں کے مقابلے میں امت محمدیہ کے افراد کی عمریں کتنی قلیل ہیں ، پچھلی امت کے لوگ جہاں 500 سے لیکر 2000 سال تک جیا کرتے تھے وہیں پر احادیث کی روشنی میں امت محمدیہ کے ایک فرد کی عمر 60 سے 70 سال کے درمیان ہے ، اب اگر دیکھا جائے تو دونوں امتیوں کے افراد کے مابین کتنی بُعد اور دوری ہے ، کہاں 2000 سال اور کہاں صرف 60 سال ، مگر امت محمدیہ کے اوپر اللہ تعالیٰ کا خصوصی احسان و کرم دیکھئے کہ اس امت محمدیہ کو شب قدر دے کر پچھلی امتیوں کے عمروں کے برابر نیکیاں کمانے بلکہ اس سے آگے بڑھ جانے کا موقع فراہم کیا ہے مثال کے طور پر اگر کسی مسلمان کی عمر 60 سال ہے اور وہ انسان 15 سال کی عمر میں بالغ ہوگیا گویا بالغ ہونے کے بعد 45 رمضان پائے اب اگر اس نے ہر سال رمضان کے روزے اور آخری عشرے کی طاق راتوں کا اہتمام کیا گویا اس نے تقریباً 3750 سال کے برابر اللہ کی عبادت و بندگی کی –


بہت ہی خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس عشرے کو اپنے لئے سامان آخرت بنا لیتے ہیں اور وہی کچھ لوگ دنیا کما رہے ہوتے ہیں گذشتہ چند سالوں سے ہماری زندگی کا سب سے قیمتی ، توبہ واستغفار ، بخشش و مغفرت والی رات اب بازاروں اور مارکیٹوں کے نذر ہو رہی ہیں ، مسجدیں اور مصلے خالی ہوجاتے ہیں اور مارکیٹ اور بازار آباد ہونے لگتے ہیں ، اس قدر ہجوم امنڈ آتا ہے کہ مانو سال بھر کی خریداری ان ہی مبارک راتوں میں کرنی ہے ، اس طرح جو وقت عبادت میں ، دعا میں تلاوت اور ذکر و اذکار میں گزرنا چاہے وہ دنیا کی سب سے بدترین جگہ میں گزار رہیں ہیں جبکہ اللہ کے رسول ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ ” أحَبُّ البلادِ إلى اللهِ مساجدُها وأبغَضُ البلادِ إلى اللهِ أسواقُها. “ ( صحيح مسلم /671 ) اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ مقامات مساجد ہیں اور سب سے ناپسندیدہ مقامات بازار ہیں ۔ کتنا بدنصیب ہے وہ مسلمان معاشرہ جہاں رمضان میں خصوصاً آخری عشرے میں بھی بازار آباد ہوں اور مسجدیں ویران ۔ خریداری کی بات ہو اور خواتین کا ذکر نہ ہو ایسا کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ آگ بھی جلے اور دھواں بھی نا ہو ؟ خواتین تو شاپنگ کے مواقع تلاش کرتی رہتی ہیں کوئی موقع ہاتھ آجائے تو وہ پورے جوش و خروش کے ساتھ اپنے پسندیدہ مشغلے میں جت جاتی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی خواتین کی شاپنگ کا وہ عالم ہوتا ہے جس کی مثال پورے سال نہیں ملتی ہے ۔یقینا گھر اور بچوں کے لئے عید کے موقع پر خریداری کرنی چاہئے اور شریعت کی رو سے اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے بلکہ یہ تو گھر کے بڑوں کی عائلی ذمہ داریوں میں آتا ہے لیکن اس میں دو باتوں کا ہمیں خیال رکھنا چاہئے …… ایک تو حد سے زیادہ تجاوز، اسراف کے زمرے میں آتا ہے، بعض اوقات غنی اور مالدار گھرانوں کا ایک ایک شخص اور ایک ایک خاتون ہزاروں لاکھوں کی خریداری کرتی ہے اس چیز سے بچنا چاہیے ، دوسری بات جس کا ہمیں بہت خیال رکھنا چاہئے وہ یہ کہ عید کی خریداری کے لئے اپنی زندگی کی سب سے قیمتی راتوں اور دنوں کو غارت نہ کریں …… اوّل تو خریداری کا شیڈول ہی ایسا بنانا چاہئے کہ رمضان کے مبارک ماہ کا کوئی ایک لمحہ بھی اس میں صرف نہ ہو، رمضان سے پہلے ہی ضرورت کی خریداری سے فراغت حاصل کی جائے لیکن اگر رمضان ہی میں خریداری کی نوبت آتی ہے تو اس کے لئے ایسے اوقات رکھے جائیں جن میں کوئی نماز متاثر نہ ہو…… اور رات کے قیمتی اوقات کو تو ہر حال میں مارکیٹ اور بازاروں کے لہوولعب سے بچانا چاہئے …… ایک حقیقی مسلم معاشرے میں رمضان کی راتوں میں مارکیٹیں اور بازار نہیں، بلکہ صرف مسجدیں آباد رہتی ہیں، بوڑھی اور کم عمر خواتین گھر میں مصلوں کو آباد رکھتی ہیں، عبادت ہوتی ہے، تلاوت ہوتی ہے، دعائیں ہوتی ہیں، مرادیں مانگی جاتی ہیں …… اور رب کی طرف سے فیاضی اور عطا و فراونی کے جوش کا یہ عالم ہوتا ہے کہ بس رحمت الہی کو ایک بہانہ کی تلاش رہتی ہے کہ کوئی مانگے اور وہ عطا کر دے…… کوئی جھولی پھیلائے اور وہ بھر دے…… کوئی بخشش کا نالہ بلند کرے او ر وہ مغفرت کا پروانہ تھما دے …… اس لئے ہمیں چاہئے کہ اس قیمتی عشرہ کی قدر کریں، عید کی خریداری بقدر ضرورت کریں اور عید کی رات کو قدرت کا انمول تحفہ سمجھ کر عبادت ومناجات، ذکر واذکار سے آباد رکھیں، اپنی انفرادی زندگی کی کدورتوں کو ندامت کے آنسووں سے صاف کرنے کی فکر کریں اور ملک و ملت اور عالم اسلام کو بحرانوں اور مصائب سے نکلنے کے لئے دعاؤں کا اہتمام کریں کہ یہ وقت، وقتِ دعا ہے اور ہماری فانی زندگیوں کا انمول اثاثہ ہے۔
ان تمام مشکلات سے بچنے کے لیے ضروری ہے اور عقلمندی کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ عید کی خریداری رمضان سے قبل یا ماہ صیام کے ابتدائی ایام میں کرلی جائے۔ اس طرح بازاروں میں مشقت نہیں اٹھانی پڑے گی، پیسے کی بچت ہوگی اور یک سوئی کے ساتھ عبادت بھی ہوسکے گی۔ بہرحال اب یہ کوشش کریں کہ کم سے کم وقت میں عید کی شاپنگ مکمل ہوجائے اور عبادات کے لیے زیادہ سے زیادہ وقت میسر آجائے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے قیام و صیام کو قبول کر آخرت کا ذخیرہ بنائے اور ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے آمین

محمد علي محمد مسلم الآعظمي

متعلم : جامعة القصيم ، المملكة العربية السعودية

Read Previous Article

https://shaikhazmi.com/%d9%85%d8%a7%db%81%d9%90-%d8%b4%d8%b9%d8%a8%d8%a7%d9%86-%d8%ad%d9%82%db%8c%d9%82%d8%aa-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a8%d8%af%d8%b9%d8%a7%d8%aa/

Leave a Reply