You are currently viewing اصلاح معاشرہ میں نوجوان کا کردار

اصلاح معاشرہ میں نوجوان کا کردار

قوتوں ، صلاحیتوں ، حوصلوں ، اُمنگوں ، جفاکشی ، بلند پروازی ، اور عزائم کا دوسرا نام جوانی ہے – جوانی نوعِ انسانی کے لئے خالقِ کائنات کی جانب سے ایک گراں قدر نعمت و بیش بہا دولت و پونجی ہے – نیز وہ ایک ایسی قیمتی جوہر ہے جس کی چاشنی و حلاوت سے وہی شخص محظوظ و لطف اندوز ہو سکتا ہے جس کو یہ سنہرا موقع و مبارک ساعت میسر ہے ، جوانی کے ایام میں جہاں انسان اپنے گرم خون و مظبوط بازو اور تازہ ذہن و دماغ کے ذریعہ اپنی آخرت کا چراغ روشن کر سکتا ہے وہیں اپنے جنون و آوارگی و بے راہ روی کی پاداش میں اپنے مستقبل کے چراغ کو گل  بھی کر دیتا ہے – ملک و ملت کی تعمیر و ترقی کا راز جوان کندھوں میں پوشیدہ و پنہاں ہوتا ہے ، قوی عزت و آبرو کے ضامن جوان بازو ہوتے ہیں – علاوہ ازیں جوانی کی عبادت اللہ کے نزدیک انتہائی مقبول ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے « وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَۃ اللّه » اسی طرح سے جوانی کی اہمیت اور بارگاہِ الٰہی میں اس کا مقام اس حدیث سے لگا سکتے ہیں کہ « وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَا أَبْلاهُ » کہ تو نے جوانی کہا گزاری ؟ اور دوسری جگہ ہے کہ « المؤمنُ القويُّ خيرٌ وأحبُّ إلى الله من المؤمنِ الضَّعيفِ » قوی مؤمن ضعیف مؤمن سے زیادہ بہتر اور اللہ کے نزدیک محبوب ہے – کیونکہ اسلام کی سربلندی اور دین کی حفاظت کے لئے جو کام ایک قوی و طاقتور اور نوجوان شخص کر سکتا ہے وہ ایک ضعیف و لاغر شخص انجام نہیں دے سکتا –

نوجوان نسل ہر زمان و مکان اور ہر تاریخ و سیر میں امت مسلمہ کا ستون رہا ہے اور اسلام کی عزت و آبرو و تعمیر و ترقی کا منبع و مخزن رہا ہے ، نوجوان نسل ہر زمان و مکان اور ہر تاریخ و سیر میں امت مسلمہ کا ستون رہا ہے اور اسلام کی عزت و آبرو و تعمیر و ترقی کا منبع و مخزن رہا ہے ، اور اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے سب سے مستحسن کردار ادا کر سکتے ہیں ،لیکن اگر یہی نوجوان شر و فساد ، فحاشی و عریانی اور بے راہ روی کا شکار ہو جائے تو معاشرہ جہنم بن جاتا ہے

تاریخ شاہد ہے کہ نوجوانوں کا کردار اور انکی ذمہ داریاں ہر دور میں مسلّم رہی ہے ، اسلام کی دعوت کو عروج ملنے میں بھی نوجوانوں کا بڑا کردار ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں جس لشکر کو تیار کروایا اس کی قیادت باوجود جلیل القدر صحابی بشمول ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں اس وقت کے بمشکل اٹھارہ سالہ نوجوان حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو سونپی –
نوجوان کی اہمیت کا احساس و ادراک شاعرِ مشرق علامہ اقبال میں بدرجہ اتم موجود تھا اس لئے انھوں نے اپنے کلام کا وافر حصہ نوجوانوں کے متعلق تحریر کیا

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پر جو ڈالتے ہیں کمند

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے چار دشمنوں یہود ، نصاریٰ ، منافقین ، اور مشرکین کا تذکرہ کیا ہے – لا اله الا الله کے یہ دشمن تاریخ کے کسی بھی دور میں اپنے کام سے غافل نہیں رہے ہیں ، لیکن موجودہ صدی میں خاص طور سے ان کی دشمنی کا واضح ثبوت ہے ، ایسے پر فتن و پر آشوب دور میں امت مسلمہ بالخصوص نوجوانوں پر چند ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں –

١- جس میں سب سے پہلی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ ہے دعوت دین کی تبلیغ اور اعداء اسلام کی سرکوبی کے لئے اپنے آپ کو انبیائی تحریکوں کے مزاج اور رنگ میں ڈھالنا ہوگا ، صبر و استقامت ، عقیدہ کی پختگی ، حکمت و دانائی ، اخلاقِ عالیہ و حسنہ کا التزام وغیرہ جیسے صفات متصف ہونا

٢- امر بالمعروف ونہی عن المنکر : جو اس امت کی خصوصیت میں سے ہے ، یہ ایک نہایت ہی عظیم اور مہتم بالشان فریضہ ہے ، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ، « كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ » ایک دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے « وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى ٱلْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ »

٣- اعلان حق : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق گوئی کو بڑا جہاد قرار دیا ہے مزید فرمایا کہ « من رأى منكم منكرًا، فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان » ( صحیح مسلم )
‹ تم میں سے جو برائی کو دیکھے وہ ہاتھ سے روکے اگر یہ بس میں نہ ہو تو زبان سے روکے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو دل میں برا سمجھے › اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دفاع کی طاقت نوجوانوں کے اندر بدرجۂ اتم موجود ہوتا ہے ، اگر نوجوان حق گوئی اور حق پسندی کو اپنی ذمہ داری سمجھیں تو معاشرے کی کتنی ہی برائیاں ہیں جنہیں وہ ختم کر سکتے ہیں –

٤- شرم و حیاء انسانی فطرت کا ایک ایسا جوہر ہے جو اسے وقار و پاکیزگی عطا کرتا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا « الحیاء من الایمان » دوسری جگہ فرمایا « حیاء دینِ اسلام کا امتیازی وصف ہے » آج کے نوجوانوں میں جب شرم و حیا کا غلبہ ہوگا تو معاشرے سے آوارہ ذہنی ، اور جنسی بے راہ روی کا خاتمہ ہو جائے گا اور معاشرے کی اصلاح بھی ہو جائے گی –

٥- قول و فعل میں مطابقت : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ امتیازی وصف تھا کہ جو وہ کہا وہ کرکے بھی دکھایا ، اگر آج کا نوجوان اس وصف کو اپنا لے تو معاشرے کی کتنی ذمہ داریاں ایسی ہیں جنہیں وہ بخوبی ادا کر سکتے ہیں ، اسی بنیاد پر اسلام میں علم معتبر ہے جس پر عمل کیا جائے –

٦- دفع ایذاء : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا « کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا صدقہ ہے » نوجوانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مضر چیزوں سے خود مجتنب رہے اور معاشرے کو ان سے پاک رکھیں ، اور ایک مسلم کی شان ہی یہی ہے کہ اس سے ہر شخص محفوظ رہے –

عصر حاضر میں نوجوانوں پر اجتماعی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تعلیماتِ اسلامیہ کی روشنی میں اپنے آپ کو ڈھال کر اور صحابہ کرام کے جذبے کو دیکھ کر معاشرے کے اندر جنم لینے والے برائیوں کو ختم کرنے اور ایک اچھا سماج و معاشرہ بنانے کی کوشش کریں –

آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ ہم نوجوان اسلام کو معاشرے کے اندر پنپنے والی برائیوں کو ختم کرنے کی توفیق دے آمین

https://shaikhazmi.com/valentines-day/

Leave a Reply